پاکستان میں جسم فروشی کیوں برقرار ہے؟ یہ مذہب کی نہیں، ریاستی ناکامی کی کہانی ہے

 

یہ مذہب کی ناکامی نہیں، ریاست کی خاموشی ہے

ایک جملہ ہے جو بار بار سامنے آتا ہے۔
“اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جسم فروشی کیوں ہو رہی ہے؟”

سوال سننے میں بڑا مذہبی لگتا ہے۔ مگر اصل میں یہ سوال ہی غلط جگہ رکھا گیا ہے۔

کیونکہ یہاں ناکامی اسلام کی نہیں، نظام کی ہے۔

اسلام نے کبھی غربت کو تقدیر نہیں کہا۔
اسلام نے کبھی عورت کو معاشی لاش نہیں بنایا۔
اسلام نے کبھی نسل در نسل گناہ وراثت میں دینے کی اجازت نہیں دی۔

یہ سب ہم نے کیا ہے۔ خاموشی سے۔ برسوں سے۔


ہیرا منڈی کوئی پیشہ نہیں، ایک وراثتی قید ہے

تصویر میں ایک جملہ لکھا ہے:
“میرا پورا خاندان ہیرا منڈی میں کام کرتا تھا”

یہ جملہ ایک اعتراف نہیں، ایک چیخ ہے۔

یہ عورت یہ نہیں کہہ رہی کہ اس نے یہ راستہ چُنا۔
وہ کہہ رہی ہے کہ اس کے پاس کوئی اور راستہ تھا ہی نہیں۔

جب ماں اسی گلی میں پلی بڑھی ہو
جب بچپن میں اسکول کے بجائے “کلائنٹ” کا مطلب سمجھ آ جائے
جب شناخت ہی ایک محلے سے جُڑ جائے

تو پھر انتخاب کہاں ہوتا ہے؟

ہم اسے “اخلاقی مسئلہ” کہتے ہیں،
مگر اصل میں یہ نسلی قید ہے، جسے ریاست نے توڑنے کی کوشش ہی نہیں کی۔


سب جانتے ہیں، مگر سب انجان بنے رہتے ہیں

یہ سب چھپا ہوا نہیں ہے۔
ہیرا منڈی نقشے پر ہے۔
دلال معلوم ہیں۔
خریدار بھی معلوم ہیں۔

پھر بھی ہم ایسے بات کرتے ہیں جیسے یہ سب کہیں اور ہو رہا ہو۔

یہ منافقت ہے۔

ہم عورت کو دھندلا کر دکھاتے ہیں،
مگر نظام کو صاف رکھتے ہیں۔

ہم کردار پر بات کرتے ہیں،
مگر متبادل روزگار، بحالی، تحفظ، اور قانون پر نہیں۔

یہی اصل مسئلہ ہے۔


اگر یہ سب غیر اسلامی ہے، تو ختم کیوں نہیں ہوتا؟

ستر سال۔
درجنوں حکومتیں۔
ہزاروں تقاریر۔

پھر بھی ایک شہر، ایک گلی، ایک نسل بھی کیوں نہ بدلی؟

کیونکہ اخلاقیات پر لیکچر دینا آسان ہے،
مگر

  • بحالی مراکز بنانا مشکل

  • انسانی اسمگلنگ توڑنا خطرناک

  • بااثر لوگوں کے خلاف کارروائی مہنگی

اور ہم نے ہمیشہ آسان راستہ چُنا ہے۔


جسم فروشی عورت نہیں چلاتی، غربت چلاتی ہے

جب روزگار ختم ہو
جب تعلیم خواب بن جائے
جب تحفظ نہ ہو
تو جسم آخری اثاثہ بن جاتا ہے

یہ جملہ سخت ہے۔
مگر حقیقت ہے۔

اور حقیقتیں مذہبی نعروں سے نہیں، ریاستی فیصلوں سے بدلتی ہیں۔


آخری بات

یہ پوسٹ کسی عورت کے خلاف نہیں۔
یہ پوسٹ کسی مذہب کے خلاف نہیں۔

یہ سوال ریاست سے ہے۔

شاید سوال یہ نہیں کہ یہ کیوں ہو رہا ہے۔
اصل سوال یہ ہے کہ
ہم نے اسے اتنے عرصے سے معمول کیوں بنا رکھا ہے؟

خاموشی بھی ایک فیصلہ ہوتی ہے۔
اور ہم نے یہ فیصلہ بہت پہلے کر لیا تھا۔

0/Post a Comment/Comments